شہزداہ کشمیر راجہ حفیظ بابر کے لیئے کشمیر کے روایتی اور تاریخی لباس “پھیرن “کے تحفے کا تاریخی پس منظر

سہنسہ:مقبوضہ کشمیر سے ایک بھائی نے وادی کشمیر کی پہچان اور پوٹھواری ثقافت کے ترجمان شہزادہ کشمیر راجہ حفیظ بابر کے لیئے کشمیر کا تاریخی روایتی لباس “پھیرن”بطور تحفہ بھیجا ہے جسے پہن کر شہزادہ کشمیر راجہ حفیظ بابر نےکہاہے کہ وہ اپنے اندر ایک عجیب سے کفیت محسوس کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ  پھیرن ہمارے لیے صرف ایک کپڑے کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ یہ ہماری تاریخ اور ثقافت کا حصہ ہے جسے پہن کر عجیب سی خوشی محسوس ہوئی،انہوں نے کہا کہ بطور کشمیری ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے روایتی کلچر اور ثقافت کو پرموٹ کریں تا کہ پوری دنیا کے اندرکشمیری کلچر بہترین کلچر کے طور پر متعارف کرا سکیں

ریاست جموں و کشمیر کا روایتی لباس پھیرن اور تاریخ

کشمیری ثقافت میں اس لباس کی اب بہت قلت ہوتی جا رہی ہے، جیسے جیسے زمانہ ترقی کی طرف جا رہا ہے ہم لوگ اپنی ثقافت کو بھول کر مغربی لباس کو پسند کرنے لگے ہیں، فیشن اس قدر بڑھ گیا ہے لوگ کپڑے پہن کر بھی برہنہ نظر آتے ہیں خیر اس پر بحث پھر سہی،پھیرن کشمیری مرد وخواتین کے مخصوص روایتی لباس کا نام ہے اگرچہ ملبوسات کے جدید رجحانات میں شلوار قمیض کو پھیرن پر فوقیت حاصل رہی ہے لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے پھیرن پہننے کے رواج کو دوبارہ سے زندہ کیا گیا ہے اور پھیرن بھی اب جدید ملبوسات میں شامل ہے پھیرن اب کشمیر کے علاوہ دیگر علاقوں میں بھی پہنی جاتی ہے  کشمیری مرد بھی پھیرن کو جدید فیشنی لباس کے طور پر پہننے لگے ہیں جدید پھیرن اب ویسی کھلی اور لمبی نہیں ہوتی  یسا کہ روایتی پھیرن تھی بلکہ اب اس کی لمبائی گھٹنوں تک ہوتی ہے اور بعض اوقات اس میں چاک بھی ہوتے ہیں۔ اب بہت کم مرد پھیرن کے ساتھ شلوار پہنتے ہیں

جس کی لمبائی پاؤں تک ہوتی ہے پھِیرن اوپر نیچے پہنے جانے والے دو جُبّوں (گاؤن) پر مشتمل ہوتا ہے یہ انداز انیسویں صدی عیسوی کے اواخر تک خاصا مقبول رہا تاہم پِھیرن اپنی جدید شکل میں گھٹنوں سے نیچے تک ہوتا ہے جو سُتھن ( شلوار کی ایک ڈھیلی قسم ) کے ساتھ پہنا جاتا ہے یہ افغانستان میں پہنی جانے والی شلوار سے مشابہ ہوتی ہے۔ پھیرن پورے بدن کو سردی سے بچاؤ کے لیے ڈھانپے رکھتا ہے خصوصا برفباری کے دوران یہ مکمل حفاظت کرتا ہے۔ یہ لباس وادی کشمیر کے باشندے اور وادی چناب میں رہنے والے کشمیری پہنتے ہیں لفظ پھیرن کی اصل کے بارے میں کوئی شواہد نہیں ملتے البتہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ فارسی کے لفظ “پیراہن” کی بگڑی ہوئی شکل ہے جس کے معنی لباس کے ہیں۔ یہ لباس پندرہویں صدی عیسوی سے بھی پہلے کا کشمیر کی ثقافت کا حصہ ہے

تاریخ سے پتہ چلتا ھے کہ مغل بادشاہ اکبر کے دور میں اس نے لباس کے طور پر پھیرن کو پھلی بار ریاست میں بنوایا ا یک اور روایت ھے کہ فارس کے کچھ لوگ یہاں آئے اور انھوں نے پہلی بار پھیرن پہنا یا فارس سے پہن کے آئے لیکن آج کے دور میں یہ مشہور ھے کہ اکبر کے دور میں جب اس نے ریاست کو فتح کیا تب سے 1586 سے پھیرن کا استعمال شروع ھوا پھیرن کا زیادہ استعمال انیسوی صدی سے ھو رھا ھے

پھیرن دو طرح کے ھوتے ھیں ایک تو گھروں میں پہنے جاتے ھیں اور دوسرے دفاتر کے لیے۔جو گھروں میں پہنے جاتے ھیں وہ نیچے سے زیادہ کھلے ھوتے ھیں تا کہ بیٹھنے میں آسانی ھو پھیرن جو مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر میں سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ھے ۔اسکی سالانہ تعداد بیس سے پچیس لاکھ ھوتی ھے۔مرد کے پاس دو پھرن اور عورت کے پاس کم از کم چار پھیرن ھوتے ھیں جس پر کڑاھی ھوتی ھے ایک بچے کے پاس بھی دو پھیرن لازمی ھوتے ھیں پھیرن مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں ھر شخص پہنتا ھے۔وہ استاد ھو یا شاگرد،سیاست دان ھو یا کاروباری شخص،کچھ عرصہ قبل بھارتی حکومت نے مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں پھیرن پر اس لیے پابندی لگا دی گئی تھی کہ کشمیری اسکے اندر اسلحہ چھپا کر لے جاتے ھیں۔یہ ھندودستان کا ایک بے حد گھٹیا کام تھا پھیرن ریاست جموں و کشمیر میں اس لیے پہنا جاتا ھے تا کہ سردی سے بچا جا سکے ۔کیونکہ ریاست جموں و کشمیر میں بے حد سردی ھوتی ھے اور برف باری بھی

(637)

شہزداہ کشمیر راجہ حفیظ بابر کے لیئے کشمیر کے روایتی اور تاریخی لباس “پھیرن “کے تحفے کا تاریخی پس منظر

| News | 0 Comments
About The Author
-

You may use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>