لندن:ماہرین کی پیشگوئی کے مطابق اس عشرے کے آخر تک برطانیہ میں مجموعی امیگریشن بریگزیٹ سے قبل کی سطح سے بھی کم رہ جائے گی۔ آکسفورڈ یونیورسٹئ اور لندن اسکول آف اکنامکس میں قائم مائیگریشن آبزرویٹری کے مطابق اگلے چند برسوں کے دوران امیگریشن کی شرح میں کمی آئے گی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یوکرین کی جنگ اور ہانگ کانگ کی ری سیٹلمنٹ اسکیموں کی وجہ سے قومی شماریات دفتر کے موجودہ تخمینے کی وجہ ہیں، جن کے مطابق6لاکھ6ہزار افراد گزشتہ سال برطانیہ پہنچے لیکن ان اعدادوشمار سے کابینہ کے بعض ارکان اور بعض ٹوری ارکان پارلیمنٹ پریشان ہوگئے ہیں جبکہ وزیراعظم نے اس سال کے اوائل میں اس تعداد کو بہت زیادہ قرار دیا تھا۔ تا
زہ ترین پیشگوئی امیگریشن کے بارے میں مختلف تصورات پر مبنی ہے، جس میں قومی شماریات دفتر اور ہوم آفس کا ڈیٹا شامل ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امیگریشن کی موجودہ شرح رواں سال سے 2025تک برقرار رہے گی، اس کا بڑا سبب غیر ملکی طلبہ اور یوکرین سے آنے والے کچھ لوگ ہیں جبکہ ہانگ کانگ سے آنے والوں کے بھی اس میں اثرات شامل ہیں۔
نئی رپورٹ تیار کرنے والے لندن اسکول آف اکنامکس کے پروفیسر ایلن میننگ کا کہنا ہے کہ یوں تو امیگریشن کی صحیح تعداد کوئی نہیں بتا سکتا لیکن بہت سے عوامل ایسے ہیں، جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، مثلاً اب غیرملکی طلبہ طویل المیعاد ورک ویزوں کو ترجیح دیتے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ورک ویزا میں گزشتہ برسوں کی طرح اضافہ ہوتا رہے گا۔
اس کے علاوہ یہ دیکھنا ہوگا کہ اسائلم سیکرز کا کیا بنتا ہے۔ ناقابل پیشگوئی کے معنی یہ ہیں کہ خود پالیسی ساز یہ نہیں بتا سکتے کہ امیگریشن کی مجموعی تعداد کتنی رکھی جائے گی۔ مائیگریشن آبزرویٹری کی ڈائریکٹر میڈلن سمپٹن کا کہنا ہے کہ علاج معالجے اور دیکھ بھال کیلئے جاری کئے جانے والے ویزے بھی مائیگریشن کی شرح زیادہ ہونے کا سبب بنتے ہیں۔
(1)